ارنا کے مطابق دفترخارجہ کے ترجمان نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف علاقے میں بے ثباتی کے اقدام کے الزام کو گروپ سات کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کا مشترکہ بیان لکھنے والوں کی شر پسندی اور حقائق میں تحریف قرار دیا ہے۔
انھوں نے مغربی ایشیا ميں گروپ سات کے رکن ملکوں کے غیرقانونی، غیر ذمہ دارانہ اور مداخلت پسندانہ اقدامات بالخصوص نسل کشی کی مرتکب غاصب صیہونی حکومت کی مالی، سیاسی اور اسلحہ جاتی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ گروپ سات کے رکن ملکوں کو مغربی ایشیا ميں اپنے امن و استحکام کے منافی اقدامات اور مقبوضہ فلسطین میں انسانی حقوق کی کھلی پامالی میں صیہونی حکومت کا ساتھ دینے کا جواب دینا چاہئے۔
اسماعیل بقائی نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کہا ہے کہ ایران کی ایٹمی سرگرمیاں، ملک کی صنعتی اور تکنیکی ضرورت کے تناسب سے انجام پارہی ہیں اور مکمل طور پر ایٹمی اسلحے کے عدام پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی اور سیف گارڈ سسٹم کے اصول وضوابط کے مطابق ہیں اور اس حوالے سے گروپ سات کا اظہار تشویش پوری طرح سیاسی محرکات پر استوار ہے۔
ایران کے دفترخارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مشرق وسطی کو ایٹمی اسلحے سے پاک علاقہ بنانے کی مہم میں پیشقدم ہے اور اس راہ میں واحد رکاوٹ غاصب صیہونی حکومت ہے جس کو غزہ اور غرب اردن میں اپنے تمام وحشیانہ ترین جرائم اور انسانی حقوق کی کھلی پامالی کے باوجود، گروپ سات کی حمایت حاصل ہے اور اس نے اجتماعی قتل عام کے جنگی وسائل کی توسیع سے بین الاقوامی امن وسلامتی کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، ہرقسم کی دھمکی اور جارحیت کے مقابلے میں اپنےعوام، ارضی سالمیت اور قومی اقتدار اعلی کے دفاع کے لئے اپنی فوجی اور دفاعی توانائیوں کی توسیع کو ضروری سمجھتا ہے۔
اسماعیل بقائی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی توانائیاں ملک کی سلامتی کے ساتھ ہی مغربی ایشیا کے صلح وسلامتی کے تحفظ کے لئے بھی ہیں۔
دفترخارجہ کے ترجمان نے یوکرین تنازعے کے تعلق سے ایران کے خلاف گروپ سات کے رکن ملکوں کے غیر ذمہ دارانہ اور تکراری دعووں کو مسترد کرتے ہوئے، جنگ کی مخالفت اور گفتگو ومذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل کو اسلامی جمہوریہ ایران کا اصولی موقف قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یوکرین کے تنازعے میں ایران کی کوئی مداخلت نہیں ہے اور اس حوالے سے ایران کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیاں کرنے والے دوسروں کو قصوروار قرار دینے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنی غلط پالیسیوں کی اصلاح کریں۔
آپ کا تبصرہ